اجتماعی معاشرہ میں قانون ساز اداروں کا قیام۔Establishment of Legisilative Bodiesقرآن حکیم صرف انفرادی ہدایات و احکامات اور اصولوں پر ہی مبنی نہیں ہے، بلکہ پورے معاشرہ کے لئے اجتماعی احکامات کا ایک واضح فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ جس میں قانون ساز ادارے کا قیام بھی شامل ہے۔ دیکھئےاور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیںعموما اس سے مراد یہ لی جاتی رہی ہے کہ کچھ لوگ جمع ہوکر کبھی کبھار تبلیغ کرلیں یا لوگوں کو نصیحت کردی جائے۔ لیکن ایک آرگنائیزڈ یعنی منظم معاشرے میں آپ اس طرح کی Hobby Style مشغولیت سے باقاعدہ قوانین کا کام نہیں لے سکتے ۔ لہذا اس کے لئے ایک منظم ادارہ کے قیام کی ضرورت ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مومنین کے فیصلہ باہمی مشورے سے ہوتے ہیں اس بنیادی اصول کو قران ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیںاس مجلس شوری کے نمائندوں کے انتخاب کے لئے قرآن یہ گائیڈ لائینز فراہم کرتا ہے۔ دیکھئےاور سب کے لئے ان (نیک و بد) اعمال کی وجہ سے جو انہوں نے کئے درجات مقرر ہیں تاکہ (اﷲ) ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گاان نمائندوں کو اس دنیا میں اور اسلامی معاشرے میں مناسب درجات پر فائز کرنے کے لیے انکے اعمال سے انکے درجات کا تعین ہوتا ہے۔اور چننے والوں کو اللہ تعالی ہدایت کرتا ہے کہ آپ اپنا اعتماد یعنی ووٹ یا بیعت ان لوگوں کے حوالے کریں جو اس کے مستحق ہیں دیکھئےبیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (الامانات Your trust) انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان (امانات) کے اہل ہیں، اور جب تم ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےاس تمام پروسیس میں وہ لوگ جو آپ سے مختلف خیالات رکھتے ہیں ان کو آپ کیسے شامل کریں؟ دیکھئے اللہ کی ہدایت کہ اپنے رسول کو نرم خوئی سے سب سے مشاورت کا حکم دیتا ہے۔(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہےاللہ کے نزدیک عزت کا معیار پرہیزگاری ہے،اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہےعمر کی پختگی کا معیار 40 سال، قرآن ان الفاظ میں کرتا ہےاور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانہ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے، تو کہتا ہے: اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوںقرآن کریم ہم کو اللہ اور رسول کے ساتھ ان صاحب اختیار تمائندوں کے حکم کی تعمیل کا حکم دیتا ہے۔اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہےیہود و نصاری کے لئے قانون کیاہو، اللہ تعالی نے یہود کو تورات اور نصاری کو انجیل عطا فرمائی تھی، اور اس وقت اان کے فیصلے اور قوانین تورات کے مظابق تھے، اب قرآن کے آجانے کے بعد، ان آیات کی مدد سے فیصلے کئے جائیں گے۔ اس ضمن میں درج ذیل آیات دیکھئے، ان آیات کے ترجمے کو دیکھتے ہوئے، دوسرے انگریزی ترجموں پر بھی دھیان دیجئے، کیونکہ یہاں اردو گرامر میںتھوڑا فرق نظر آتا ہے۔ دیکھئےاور یہ لوگ آپ سے کیوں کہتے ہیں کہ ہمارے فیصلے کرو جبکہ ان کے پاس تورات ہے۔ جس میں اللہ کی احکام موجود ہیں، پھر یہ اس کے بعد (بھی حق سے) رُوگردانی کرتے ہیں، اور وہ لوگ (بالکل) ایمان لانے والے نہیں ہیںبیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا، اس کے مطابق انبیاء جو (اﷲ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کی فیصلے کرتے رہے اور اﷲ والے (یعنی ان کے اولیاء) اور علماء (بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے)، اس وجہ سے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (و گواہ) تھے۔ پس تم (اقامتِ دین اور احکامِ الٰہی کے نفاذ کے معاملے میں) لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیںاور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے، تو جو شخص اس (قصاص) کو صدقہ (یعنی معاف) کر دے تو یہ اس (کے گناہوں) کے لئے کفارہ ہوگا، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیںاور اہلِ انجیل کو (بھی) اس ( موجودہ قرانی حکم) کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیںقانون سازی پر حرف آخر، یہ کتاب۔اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھےکیا یہ لوگ (زمانہ) جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، اور یقین رکھنے والی قوم کے لئے حکم (دینے) میں اﷲ سے بہتر کون ہو سکتا ہےقانون ساز اسمبلی، سینیٹ یا مجلس شوری کا قیام، تاریخ اسلام اور سنت رسول و صحابہ سے ثابت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی قریب کی حکومتوں میں ایسی کسی اسمبلی، پارلیمنٹ یا شوری کے کوئی آثار کیوں نہیں ملتے؟صاحبو، دوستو، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے قران کے اس جمہوری نظام کو ترک کردیا اور صفحوں کے صفحے ملوکیت یعنی بادشاہت پر لکھ ڈالے۔آپ قومی دولت کا مکمل کنٹرول ایک شخص (یعنی بادشاہ ) کو دے دیجئے اور پھر اس دولتمند سے کہیئے کی بھائی اب تم یہ دولت چھوڑ کر چلے جاؤ تو کیا وہ یہ دولت چھوڑ دے گا؟ ہرگز نہیں، لیکن جمہوری نظام میں منتظم اعلی یعنی صدر، پرائم منسٹر کو اپنا وقت پورا ہونے پر بہر صورت حکومت چھوڑ کر ہٹنا ہوتا ہے۔ اور عوام اس شخصیت کا انتخاب کرتے ہیں۔زیادہ تر بادشاہ حکمران صرف دولت کے دلدادہ تھے اور عوام کی دولت کو صرف اپنا سمجھتے تھے، یہ دولت انہوں نے صرف اپنی اولادوں کو دی۔ حکومت صرف چھینی جاتی رہی وہ بھی صرف دولت اور کنٹرول کے لالچ میں۔ عموما اس عوام کی دولت کو عوام کی فلاح کے لئے خرچ نہیں کیا جاتا تھا۔ مدرسوں، اسکولوں، شفاخانوں- عوامی ذرائع آمدورفت کی جگہ صرف اپنی دولت کو محفوظ کرنے کے لئے قلعے اور محلات اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے انتظام، بادشاہوں کی ترجیحات رہی۔ ہندوستان میں گو اسلامی حکومت، کوئی کہتا ہے 600 سال رہی اور کوئی کہتا ہے 1000 سال، لیکن پاکستان وہندوستان میں مسلمانوںکی ان حکومتوں کی یادگار ، کتنی یونیورسٹیوں کے آثار ملتے ہیں؟ یا کتنے شفاخانوں کے آثار ملتے ہیں؟ یا عوام کی فلاح کے نشان کتنی سڑکیں ملتی ہیں؟ان سوالوں کا جواب ایک فردِ واحد کی حکومت کے بجائے عوام کے نمائندوں کی حکومت میں چھپا ہے۔ مسلمانوں کے زوال کا راز اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ رسول کریم کی وفات کے بعد حکومت خاندانوںمیں منتقل ہونے میں 100 سال بھی نہیں لگے۔ قرآن کے ان آسان اور سادہ احکامات کو مکمل طور پر چھپا دیا گیا اور عام کردیا گیا کہ قرآن کا سمجھنا بہت مشکل ہے۔ بنیادی مقصد یہ رہا کہ عوام اس عظیم کتاب کو روشنی نہ حاصل کریں اور اگر پڑھیں تو مکمل کنٹرول رہے ایسے حضرات کا جو بادشاہ کے طوہاَ و کرہاِ خیرخواہ ہوں کہ کنٹرول تو بادشاہ کا ہی ہوتا تھا، فرد واحد کی حکومت اور فردِ واحد کی قانون سازی۔ عموما بادشاہوں کا مقصد بڑے مفتی یا امام کے اپائنٹمنٹ سے مناسب سپورٹ حاصل کرنا ہوتا تھا، کہ حکم حاکم، مرگ مفاجات۔ جس نےمخالفت کی، اسے اڑا دیا گیا۔ چھوٹے امام یا مولویوں کا درجہ اِس مذہبی سٹرکچر کو قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوتا تھا اور ارتقاء پاتا گیا۔ اللہ نے بہت مناسب موقع فراہم کیا ہے کہ ہمارے امام و مولوی حضرات اپنے علم کا استعمال کرکے قران حکیم کے احکامات پر مبنی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں ممدد اور معاون ہونے کا کردار ادا کریں اور اس جمہوری قانون سازی میں اپنا کردار ادا کریں۔ (تمام تر عزت کے ساتھ عرض ہے کہ) ان مولوی اور امام حضرات کو اب تک یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فرد واحد کی حکومت سے ان کو اللہ نے نجات دے دی ہے اور اب علم کےاستعمال کا قران کی تعلیمات کے مطابق وقت آگیا ہے۔ لہذا فرد واحد کی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ حضرات اسمبلیوں میں جاکر بہت مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ قران کسی مذہبی درجہ بندی کو فروغ نہیں دیتا، کسی بھی جگہ، نبیوںکے علاوہ، ایک فرد واحد کو قانون سازی کا مکمل حق نہیں دیتا۔ اور نبی کے درجے پر فائز خود اللہ تعالی فرماتا رہا ہے، یہ درجہ کسی طور خود سے اب حاصل نہیں کیا جاسکتا۔کیا آپ آج یا ماضی کے کسی بھی بادشاہ یا ملکہ (جیسے برطانیہ اور ہالینڈ) کو قائل کرسکتے ہیں کہ وہ عوام کی دولت سے دستبردار ہو جائے اور اس بادشاہ کے بعد یہ دولت و حکومت عوام کے نمائندہ ایک قانون ساز ادارے کو منتقل کر دی جائے؟والسلام
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment