Monday, October 15, 2012

مسلم معاشرہ میں مکمل شخصی آزادی




مسلم معاشرہ میں مکمل شخصی آزادی

قرانِ حکیم کا نزول اور نبوتِ رسالت مآب کا دور تاریخ کے ایسے موقع پر شروع ہوا جب کہ غلامی کی بیماری دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئی تھی۔ قرآن نے نہ صرف شخصی آزادی کا تصور ایک مکمل آئین کی صورت میں پیش کیا، بلکہ اس مسئلہ کا بتدریج حل بھی پیش کیا۔ یہ قرآن کا انوکھا انداز ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی خرافات کا حل فوری ممکن نہیں ہے، لہذا اس کا بتدریج حل ہماری سوچوں کو ارتقاء کی بتدریج منازل سے گذار کر پیدا کرتا ہے۔ جب ہماری سوچوں کا ارتقاء مکمل ہوجاتا ہے تو لوگوں کی اکثریت اس معاملہ کے، جسے قران خراب قرار دے چکا ہے، مخالف ہوجاتی ہے اور پھر اس اکثریت کواس میں موجود بھلائی نظر آنی شروع ہوجاتی ہے۔ اس طرح معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ 

معاشرے میں مکمل طور پر شخصی آزادی کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ غلامی اور غلاموں‌کی آزادانہ خرید وفروخت تھی۔ قرآن نے اس معاشرتی کریہہ بیماری کو کس طرح شناخت کیا اور اس کا علاج کس طرح کیا۔ یہ سوشل سائنٹسٹس کے لئے ایک ہمہ جہت مثال ہے۔

غلامی کی کریہہ بیماری کی شناخت اور اس کا بتدریج علاج:
1۔ عورتوں کی غلامی اور ان غلام عورتوں اور شادی شدہ عورتوں کے حقوق کے فرق کی شناخت اور غلام عورتوں کے حقوق کی آزاد اور شادی شدہ عورتوں کے حقوق کی طرف ‌تبدیلی تاکہ غلام عورتوں اور ان کی اولادوں کو آزاد اور شادی شدہ عورتوں اور انکی اولادوں جیسے حقوق چار دیواری اور معاشرہ دونوں میں حاصل ہو جائیں۔

2۔ غلام مردوں کے حقوق کی آزاد مردوں کے حقوق میں تبدیلی۔
3۔ انسانوں کو غلامی سے نجات کا مکمل حکم۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح قران مکمل شخصی آزادی کے تصورات پیش کرتا ہے اور مسلم معاشرے اور اس کے نتیجے میں دنیا سے غلامی کا خاتمہ کرتا ہے۔ 

اللہ تعالی غلامی کا یک لخت خاتمہ آسان بنادیتے ہیں کہ وہ لوگ جو غلام ہیں اور آزادی چاہیں، ان کو پروانہ آزادی لکھ کر دے دیں۔ دیکھئے

اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو پروانہ آزادی کو خواہش کریں تو انہیں پروانہ آزادی لکھ کردے دو اگر تم اس میں موجود بھلائی(کے بارے میں) جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے (کر رخصت) کرو، (وہ مال) جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے کریہہ بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہیں، اور جو شخص انہیں (باندیوں کو) اس کریہہ بدکاری پر مجبور کرے گا تو اللہ ان (باندیوں) کے مجبور ہو جانے کی وجہ سے (ان کو) بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

سورۃ النور کا یہ حکم نور سے بھرپور ہے۔ اللہ تعالی جانتے ہیں کے غلاموں کے پاس نہ کوئی اثاثہ ہے اور نہ ہی کوئی ہنر۔ لہذا اس حکم اس انداز میں پیش کیا گیا کہ جو آزادی چاہے اسے مل جائے اور جو غلامی میں ہو وہ مجبور نہ ہو۔ 

ایسی عورتوں کو جو غلامی میں‌ تھیں، قران، شادی شدہ عورتوں کے مساوی اس خوبصورتی سے کرتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ان کی اولاد مکمل حقوق کی مالک ہو۔ اس مقصد کے لئے 'مملوکہ' مرد و حضرات کے لئے 'ملکت ایمانکم' کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ کہ ایک 'ملکت ایمانکم' باندی۔ ایک شادی شدہ عورت جیسے حقوق پانے کے بعد ایک عام باعزت اور مکمل شخصی آزادی کی حامل شخصیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ 

ان حقوق کی مثال دیکھئے، ملکت ایمانکم سے ان کے مالکوں سے شادی کا حکم۔ تاکہ وہ آزاد ہو جائیں۔ ان کے مہر بھی آزاد عورتوں کے طرح‌مقرر کرنے کی ہدایت تاکہ معاشرہ میں شخصی آزادی کی راہ ہموار ہو۔

اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے


ان سابقہ 'ملکت ایمانکم' سے مساوی سلوک کرنے کا حکم تاکہ معاشرہ کا ہر فرد مساوی حقوق کا حامل ہو۔ جو لوگ مساوی سلوک نہیں کرتے، ان کو قران متکبر قرار دیتا ہے۔ اور مغرور و متکبر کو ناپسند فرماتا ہے۔

اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو

اسلامی معاشرہ میں مساوات اور مکمل شخصی آزادی کے نفاذ کے لئے زیر دستوًًں کے ساتھ ایسی اوچھی حرکات کی ممانعت، جن سے لوگوں پر بنیادی ضرورت پوری نہ ہونے کے باعث دباؤ پڑے۔

اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالانکہ وہ سب اس میں (بنیادی ضروریات کی حد تک) برابر ہیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں

معاشرہ میں مکمل شخصی آزادی کے لئے 'ملکت ایمانکم' کی آپ کو اللہ کے دئے ہوئے مال میں شراکت کی مد میں: (اس مد میں آپ مزید انگریزی تراجم بھی دیکھ لیں)

اُس نے تمہارے لئے تمہاری ذاتی زندگیوں سے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ کیا جو (لونڈی، غلام) تمہاری مِلک میں ہیں اس مال میں جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے شراکت دار ہیں، کہ تم (سب) اس (ملکیت) میں برابر ہو جاؤ۔ (مزید یہ کہ کیا) تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح تمہیں اپنوں کا خوف ہوتا ہے (نہیں) اسی طرح ہم عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں (کہ اﷲ کا بھی اس کی مخلوق میں کوئی شریک نہیں ہے)


اس طرح اللہ تعالی قران حکیم کے ذریعے اور اس کے رسول کی سنت سے غلامی جیسی کریہہ بیماری کا معاشرے سے خاتمہ کرکے مکمل شخصی آزادی قائم کرتے ہیں۔ وقت گواہ ہے کے ان احکامات اور ان جیسے مزید احکامات جنہیں آپ قرآن میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں، کی مدد سے، دنیا میں‌عام طور پر اور اسلامی معاشرہ سے خاص طور پر غلامی کا خاتمہ ہوا۔ اور مکمل شخصی آزادی کے نظریہ کو حمایت حاصل ہوئی۔

ولسلام۔

0 comments: