معاشرے میں خواتین و حضرات کے مساوی حقوق و مساوی درجہقرآن حکیم، عورتوںاور مردوں کو معاشرے میں مساوی درجہ دیتا ہے۔ اور آپس میں مل جل کر شان بہ شانہ رفیق و مدگار بن کر کام کرنے کا حکم دیتا ہے اور پیش گوئی کرتا ہے کہ ایسی رفاقت پر مبنی معاونت آخرت میں پر نور ثابت ہوگی۔ آئیے دیکھتے ہیں۔بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہےسبحان اللہ!اور مردوں اور عورتوں کو ایک پائیدار اور معیاری معاشرے کی تشکیل کے لئے ایک دوسرے کا رفیق و مددگار قرار دیتا ہے کہ وہ ایک اسلامی نظام سے آراستہ معاشرے کے قیام میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہوں۔اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےقرآن کی ہر آیت ایک قانون ہے اور مسلمان پر فرض ہے۔ جو لوگ ان آیات کو جھٹلا کر مسلمان مردوں اور عورتوں کو ان کے ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہونے پر تکلیف دیتے ہیں ان کو اس طرح مخاطب کرتا ہے۔اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بیشک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیااور جو لوگ رفیق و مددگار مردوں اور عورتوں پر لگائے گئے بہتان کو سن کر اس کو کھلا بہتان قرار نہیں دیتےتو اس طرح مخاطب کرتا ہےایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس (بہتان) کو سنا تھا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے بارے میں نیک گمان کر لیتے اور (یہ) کہہ دیتے کہ یہ کھلا (جھوٹ پر مبنی) بہتان ہےخدا خود گواہی دیتا ہے کہ مومن مرد و عورتیں، معاشرے میں اپنے کام کی بناء پر اور فلاحی مملکت کے نظام کے کام میں اس آپسی رفاقت اور مددگاری کے باعث آخرت میں کس صورت ہوں گے۔(اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہےاور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گےاللہ کسی کا کام ضائع نہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت:پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہےمرد و عورت کو نیکی کا بدلہ برابر عطا ہوگا۔جس نے برائی کی تو اسے بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر صرف اسی قدر، اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائے گاجنت میں بھی مرد و عورت مساوی حق سے داخل ہونگے کوئی حق تلـفی مرد یا عورت ہونے کے ناطے نہ ہوگی۔اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گیایک فلاحی ریاست کے قیام کا تصور عورتوں اور مردوں کی مساوی شمولیت کے بغیر نا ممکن ہے۔ اس مساوی شمولیت کے نتیجے میں اللہ تعالی جس معاشرے کی تخلیق فرما رہے ہیں، اس میں شامل مردوں اور عورتوں سے اس کام کے اجر کا وعد فرماتے ہیں، جو کام ان کو سورۃ التوبۃ:8 , آیت:71 میں سونپا ہے۔اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات کا بھی (وعدہ فرمایا ہے) جوجنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں، اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہوگی)، یہی زبردست کامیابی ہےقران حکیم اس طرح مساوی طور پر مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا رفیق مددگار بن کر کام کرنے کی ہدایت کرتا ہے، تاکہ معاشرے میں استحکام پیدا ہو۔ جب یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس سے اخلاقی برائیاں پھیلنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے، تو اللہ تعالی وعدہ فرماتے ہیں کے تم آخرت میںدیکھ لینا کہ ان کے کئے ہوئے کام اور نیکیوں کا نور انکے اگے، اور دائیں چل رہا ہوگا۔ ہم خود دیکھ چکے ہیں کہ خواتین کے میدان عمل میں آنے سے معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا خاتمہ ہوا اور ہوتا ہے۔ایک تعلیم یافتہ عورت، معاشرہ میں ماں کا کردار ادا کرتی ہے اور اپنے بچوں کی بہترین تعلیم کا سبب بنتی ہے۔ مسلم معاشرہ اور اس کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والی فلاحی مملکت کی تشکیل تعلیم یافتہ ماؤں کے بغیر ناممکن ہے۔ آپ بہ آسانی معاشرے میں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی تعلیم و تربیت میں ماں، کیا کردار ادا کرتی ہے۔ آپ آج خواتین کو تعلیم سے محروم کردیجئے، صرف 25 سال کے عرصے میں کوئی بھی معاشرہ، تعلیمی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو کر دور جاہلیت میں واپس چلا جائے گا۔معاشرہ میں عورتوں کے مساوی حقوق کی تعلیم قرانِ کریم کا ایک بہت ہی بڑا اعجاز ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ جس وقت یہ احکامات نازل ہوئے، عورتوں کے معاشرے میں کوئی حقوق نہیں تھے، قرآن حکیم نے ذہنی ارتقاء کی عمل کو تیز کیا اور خیالات کو وہ جلا بخشی کہ آج ہمارے تعلیم یافتہ خواتین وحضرات کو مساوی حقوق کے اہمیت کا اندازہ ہے۔ اس سلسلے میں مزید کوشش درکار ہےاور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی۔ولسلام۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment