Sunday, September 30, 2012

تقوی کیا ہے؟


متقی و تقوی کے معانی کسی اہل قریش سے دریافت فرمالیجئے۔ ۔ درج ذیل روایت کے مطابق  تقوی کے لفظی معانی  "کانٹوں سے بچ کر چلنے" کے ہیں

"سئل أمير المؤمنين عمر رضي الله عنه أبيّ ابن كعب فقال له : ما التقوى ؟ فقال أبيّ : يا أمير المؤمنين أما سلكت طريقاً فيه شوك ؟! فقال : نعم ، قال : فماذا فعلت ؟ قال عمر: أُشمّر عن ساقي و أنظر الى مواضع قدميا و أقدم قدماً و أؤخر أخرى مخافة أن تصيبني شوكه ، فقال أبيّ ابن كعب : تلك هي التقوى ".

اللہ تعالی اپنی لا متناہی حکمت کے ساتھ قرآن کریم میں "الْمُتَّقُونَ" کم از کم درج ذیل شرائط ہر پورا اترنے والوں کے لئے فرماتے ہیں۔ مزید احکامات بھی ہیں، جو کسی مناسب موضوع میں شامل کروں گا انشاء اللہ تعالی۔

سورۃ البقرۃ  2۔   آیت 177
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ

یقیناً اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یا اس کے عذاب سے ڈرنے والوں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے جیسے 

65:5 ذَلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنزَلَهُ إِلَيْكُمْ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا 
یہ اللہ کا امر ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل فرمایا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہ اُس کے چھوٹے گناہوں کو اس (کے نامۂ اعمال) سے مٹا دیتا ہے اور اَجر و ثواب کو اُس کے لئے بڑا کر دیتا ہے


والسلام
مکمل تحریر اور تبصرے >>

قرآن کیا کہتا ہے ۔ قرآن کس کے لئے کارآمد ہے، یہ کن لوگوں‌ کے لئے ہدایت ہے؟


بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

قرآن کن لوگوں کے لئے اتارا گیا ہے؟
الم 
الف لام میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)

اس میں جو لوگ برائیوں سے بچ کر چلنا چاہتے ہیں ان کے لئے ہدایت ہے۔ یعنی متقیوں کے لئے ، متقی وہ شخص ہوتا ہے جو کانٹوں سے اپنا دامن بچا کر چلے۔
ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ 
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے

غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا اور اللہ کے دئے سے خرچ کرنا ان لوگوں کی پہچان بتائی گئی ہے۔
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّـلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ 
جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں

ایسے لوگ، جو کتابیں‌اللہ نے پہلے اتاریں‌اور جو رسول اکرم پر اتارا گیا۔‌ ان پر ایمان لاتے ہیں اور یوم آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ 
اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں

أُوْلَـئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں

اس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہیں‌جو قطعاً نہیں‌ ڈرتے۔
إِنََّّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ 
بیشک جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے لئے برابر ہے خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے


سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات یہ واضح کرتی ہیں کہ قرآن جن لوگوں کے لئے اتارا گیا ہے ان کی خصوصیات کیا ہیں؟



والسلام
مکمل تحریر اور تبصرے >>

اسلام اور تعلیم


اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : سمارا مراسلہ دیکھیں
السلام علیکم
میں یہاں آپ سب سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اسلام میں تعلیم کی کیا حیثیت ہے۔ میرے محدود علم کے مطابق ہمارے مذہب میں تعلیم پر کافی زور دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے نبی ص کی دعا "رب ذدنی علماً " اور مزید احادیث بھی موجود ہیں "علم کا حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے" اور " علم حاصل کرنے کے لئے اگر چین بھی جانا پڑے تو جاؤ" ۔
ایسے میں آج کل کی صورتحال میں مجھے، ہم لوگوں کا رویہ علم دوستانہ نہیں لگتا تمام مسلمان ممالک تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ کچھ لوگ یہ توجیہہ دیتے ہیں کہ علم سے مراد حدیث، فقہ، سنت جیسے مضامین ہیں اور آج کل کے جدید دور میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ فنون کے زمرے مین آتی ہے-
لہٰزا میرا سوال یوں ہے کہ علم اور فنون کی مہارت کس حد تک حاصل کرنی چاہئے اور آج کل جو اعلیٰ تعلیم کا تصور ہے کیا وہ اسلام کے تصور کے مطابق ہے یا متصادم۔
نیز عورتوں اور مردوں کے لئے تعلیم کی یکسان اہمیت مزہب میں تسلیم کی گئی ہے یا اس سلسلے میں کچھ شرائط موجود ہیں۔

السلام و علیکم۔

بہت شکریہ۔ آپ نے بالکل درست فرمایا۔ تمام بزرگوں اور تمام نبیوں نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اور علم حاصل کرنے کو بہت اہم قرار دیا ہے۔



آیات کی وجہ سے یہ ایک طویل جواب ہو گیا ہے۔ میں نے اپنے جواب کو ہرے رنگ سے لکھا ہے۔ کوشش میری یہ رہی ہے کہ اس ضمن میں آیت پیش کروں اور اپنا خیال کم سے کم۔ آپ میرے تمام کے تمام جواب کو ایک طرف رکھ کر ان آیات پر غور کیجئے۔


میرے سوال کا مقصد تھا کہ ذہن میں وہ سوچ اجاگر کی جائے جو کسی بھی چیز کو بناتے وقت ذہن میں ہوتی ہے یعنی اس کا مقصد اور اس فخر کا تذکرہ کیا جائے جو کسی چیز کو بناتے وقت ہوتی ہے۔ یہ سوچ آپ کے سوالات کے جوابات کے لئے میں نے ضروری سمجھی۔ 


اسلام میں تعلیم کی کیا حیثیت ہے؟ کیا--- حدیث، فقہ، سنت --- ہی علوم ہیں؟ کیا اعلیٰ تعلیم اسلام کے مطابق ہے؟ 

اللہ تعالی آدم کی تخلیق کے وقت یاد دلا رہے ہیں۔ غور سے دیکھئے اس کا مقصد ساتھ ساتھ بیان ہورہا ہے۔

2:30 اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے

2:31 [ARABIC] وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ[/ARABIC]اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو

2:32 فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بیشک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے

2:33 اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم (علیہ السلام) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو


ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق اس کو زمین میں نائب بنانے کے لئے کی اور اس نیابت کے لئے ضروری سمجھا کہ اس کو تمام کی تمام اشیاء کا علم دیا جائے [ARABIC]وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا [/ARABIC] 


تخلیق آدم کا کا مقصدنیابت فی الارض یعنی اور اس نیابت کے لئے سب سے بڑا ہتھیار "تمام قسم کے علوم" تمام ناموں کے سکھانے سے بہت ہی واضح ہے۔ گویا تخلیق انسانی کےبنیادی مقصد کو پورا کرنے کی ضرورت بنیادی طور پر علم کا حصول ثابت ہوئی۔ 


دہکھئے۔ اقراء کی اہمیت

ہمارے ایمان کے مطابق، تخلیق انسانی کے وقت سے رسول اکرم کا انتظار تھا۔ دیکھئے اللہ اور نبیوں کا عہد۔ اللہ تعالی ہر نبی سے اس طرح ہر نبی کی امت سے یہ عہد لیتے رہے کہ ایک بزرگ نبی آئیں گے، تم ان پر ایمان لانا ، گویا ان بزرگ نبی محمد صلعم کا شروع سے انتظار تھا۔ 

3:81 اور (یاد کرو) جب لیا تھا اللہ نے عہد، نبیوں سے کہ یہ جو عطا کی ہے میں نے تم کو کتاب و حکمت (اس احسان کا تقاضایہ ہے کہ) پھر جب آئے تمہارے پاس ایک عظیم رسول تصدیق کرتا ہوا اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اور بہر حال ایمان لاؤ گے اس پر اور مدد کرو گے اس کی۔ ارشاد ہوا ! کیا اقرار کرتے ہو تم اور کرتے ہو ان شرائط پر مجھ سے عہد؟ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ ارشاد ہوا ! سو گواہ رہو تم اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔


مزید دیکھئے کہ جب کعبہ کی دیواریں اٹھائی جارہی تھیں تو ابراہیم علیہ السلام اس عہد کا اعادہ کرتے ہوئے کیا دعا فرما رہے تھے؟ دیکھئے کہ ایک ایسے نبی کی دعا جو سب کو علم سے نواازے 

2:127 اور جب اٹھا رہے تھے ابراہیم بنیادیں بیت اللہ کی اور اسماعیل بھی۔ (اور دعا کرتے جاتے تھے)۔ اے ہمارے رب!قبول فرما۔ ہم سے (یہ خدمت) بے شک تو ہی ہے سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا۔

2:128 اے ہمارے رب! اور بنا ہم دونوں کو فرمانبردار اپنا اور ہماری نسل میں سے (اٹھا) ایک امت جو مطیع فرمان ہو تیری اور بتا ہمیں طریقے اپنی عبادت کے اور قبول فرما ہماری توبہ بے شک تو ہی ہے توبہ قبول فرمانے والا، رحم فرمانے والا۔

2:129 اے ہمارے رب! اور بھیج ان میں ایک رسول ان ہی میں سے (جو) پڑھ کر سُنائے ان کو تیری آیات اور تعلیم دے ان کو کتاب و حکمت کی اور پاک کرے ان (کے دلوں اور زندگیوں) کو۔ بیشک توہی تو ہے ہر چیز پر غالب اور کامل حکمت والا۔


بعثت نبوت ایک ایسا عظیم موقعہ تھا جس کا ابتدائے افرینش سے انتظار و اہتمام تھا۔ جب وہ وقت آیا تو اللہ تعالی نے جس پہلی وحی کا اہتمام کیا، اور جس پہلی آیت کا اہتمام کیا، اور اس کے لئے جس پہلے لفظ کا اہتمام کیا وہ ہے "اقرا" Read or Learn


آپ کے اس سوال کا کہ اسلام میں تعلیم کی کیا حیثیت ہے؟ اور کیا صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنا چاہئے؟ اس کا بہت واضح‌ اور تفصیلی جواب مل چکا ہے کہ 

1۔ تخلیق انسانی کا مقصد نیابت اور اس نیابت کا واحد ہتھیار علم۔ کہ بنا علم آپ کچھ بھی نہیں بنا سکتے۔ 

2۔ تمام کے تمام علوم سکھانا خالق حقیقی کا مقصد ہے اور بہت ہی واضح ہے۔ اعلیٰ تعلیم کو حصول مسلمان کا فرض‌ہے۔

قران مصدر "علم" سے بنے ہوئے 100 الفاظ 891 بار استعمال کرتا ہے۔ یہ موضوع اس قدر طویل ہے کہ اس پر ایک مکمل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اگر ان سوالات کا جواب مل چکا ہے تو ہم مزید سوالات دیکھ سکتے ہیں۔


نیز عورتوں اور مردوں کے لئے تعلیم کی یکسان اہمیت مذہب میں تسلیم کی گئی ہے یا اس سلسلے میں کچھ شرائط موجود ہیں؟

اس کا جواب مختلف لوگ مختلف طرح دیتے ہیں۔ سب سے پہلے میں آپ کے اس سوال سے کچھ مائیلیج حاصل کرلوں  یہ تو تھا ایک مزاحیہ جملہ ، سچ بات یہ ہے کہ جب تک آپ کو عورتوں‌کے علم حاصل کرنے کی مخالفت کرنے والوں کے نکتہء‌نظر کے بارے میں علم نہ ہو تو بہت مشکل ہے کہ آپ بحث کو سمجھ سکیں


اہل حدیث کے کئی فرقہ اس بات پر متفق ہیں کہ 

1۔ لڑکیوں‌کو سورۃ یوسف (‌کچھ روایتوں میں سورۃ النور اور کچھ میں سورۃ مریم) کی تعلیم نہ دی جائے

2۔ لڑکیوں کو لکھنا نہ سکھایا جائے۔

3۔ بہت معمولی سی تعلیم دی جائے


یہ بنیاد ہے لڑکیوں کے اسکولوں کو بم سے اڑا دینے کی۔ پاکستان میں ہی نہیں ، دوسرے "اسلامی" ممالک میں یہ عمل طرح طرح کے حربوں سے جاری ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ جدید کتب روایات یعنی حدیث کی کتابوں سے یہ روایت اب غائب ہوتی جارہی ہے۔ 


وہ حدیث مع اس کی اسناد کے یہ ہے۔ اور اس پر بحث کا لنک یہ ہے۔ ۔


حدثنا محمد ابن ابراہیم ابو عبد اللہ الشامی حدثنا شعیب ابن اسحق الدمشقی عن ھشام ابن عروۃ عن ابیہ عن عایشۃ رضی اللہ تعالی عنھاقالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاتسکنوا من الغرفۃ والا تعلموھن الکتابۃ و علموھن الغزل و سورۃ النور" ( رواۃ الحاکم فی المستدرک والسیوطی)


یہ ترجمہ نہیں اس روایت کا۔ بنیادی لب لباب یہ لکھا گیاہے۔ 

عورتون کو لکھنا نہ سکھایا جائے کہ ان لکھنا سکھانا مکروہ ہے، اس کی اصل امام بیقہی کی بیان کردہ وہ حدیث ہے ، جو انہوں نے شعدب الایمان میں حضرت عایشہ صدیقہ سے اس سند کے ساتھ روایت کی ہے۔


احادیث کے بارے میں امام احمد رضا بریلوی کا انٹرویو قابل غور ہے۔

سوال نمبر12:مسلمانوں کے یہاں سب سے اول درجہ کی کتاب صحیح بخاری پھر صحیح مسلم ہے یا نہیں؟

جواب (احمد رضا شاہ بریلوی) : :بخاری و مسلم بھی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ڈھائی سو برس بعد تصنیف ہوئیں۔مسلمانوں کے بہت سے فرقے انہیں مانتے ہی نہیں اور اس کے سبب وہ اسلام سے خارج نہ ہوئے۔ماننے والوں میں بہت سے لوگ کسی خاص کتاب کو سب سے اول درجہ کی نہیں کہتے۔اس کی مدار صحت سند پر رکھتے ہیں۔بعض جو ترتیب رکھتے ہیں وہ مختلف ہیں۔مشرقی صحیح بخاری کو ترجیح دیتے ہیں اور مغربی صحیح مسلم کو۔

اور حق یہ ہے کہ جو کچھ بخاری یا مسلم اپنی تصنیف میں لکھ گئے سب کو بے تحقیق مان لینا ان کی بری تقلید ہے جس پر وہابی غیر مقلدین جمع ہوئے ہیں حالانکہ تقلید کو حرام کہتے ہیں۔انہیں خدا اور رسول یاد نہیں آتے۔خدا اور رسول نے کہاں فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ بخاری یا مسلم میں ہے سب صحیح ہے۔


اب آتے ہیں قرآن کی طرف۔ عورتوں کی تعلیم کے سوال سے پہلے یہ آیات دیکھئے۔


3:104 [ARABIC]وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ[/ARABIC]

اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں


یہ وہ جماعت ہے جو ایک اچھے کاموں کی ترویج اور برے کاموں سے روکنے کے لئے ایک قانون ساز ادارہ کا کام کرے گی۔ اس میں اعلی تعلیم یافتہ حضرات ہونے چاہئیے یا غیر تعلیم یافتہ؟ یقینی جواب ہوگا اعلی تعلیم یافتہ تاکہ ان کی نظر علم کے ہر شعبہ پر ہواور وہ مناسب قانون سازی کرسکیں چاہے وہ بینکنگ کا قانون ہو یا اجتماعی قانون ، وہ خانگی قانون ہو یا پبلک سیفٹی ایکٹ۔ اس طرح یہ جماعت [ARABIC]وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ [/ARABIC] کا کام سر انجام دے سکے گی۔ کوئی شبہ ہے ان کی قابلیت اور تعیلیم یافتہ ہونے کی ضرورت پر ؟ ( میں نے سرٹیفیکیٹ‌یافتہ نہیں کہا)۔



اب دیکھئے اس جماعت میں کون کون ہونا چاہئیے جو [ARABIC] وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ [/ARABIC] کا کام سر انجام دے؟

[ARABIC]

9:71 وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [/ARABIC] 

اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ حکم دیتے ہیں بھلائی کا اور منع کرتے ہیں بُرائی سے قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکوٰۃ اور اطاعت کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسُول کی۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ضرور رحمت نازل فرمائے گا ان پر اللہ۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔


[ARABIC]وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ [/ARABIC] کے اس عظیم فریضہ میں جس کے لئے تعلیم و لیاقت ایک ضروری امر ہے مومن مردوں‌اور مومن عورتوں کو اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے رفیق کہا گیا ہے۔ قانون ساز ادارہ کی یہ رفاقت بنا تعلیم کے ممکن ہی نہیں۔ اور اس رفاقت کے بغیر خواتین کے حقوق کا دفاع ممکن ہی نہیں۔ لہذا خواتین کی تعلیم اور اعلی ترین تعلیم کی اہمیت سے انکار ایک اہم فریضہ کی راہ میں رکاوٹ‌بن جائے گا۔


ہم مزید یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے معاشرہ میں عورتوں اور مردوں کو ایک مساوی مقام عطا کیا ہے۔ درض ذیل آیات دیکھئے

33:35 بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے


قرآن کی ہر آیت ایک قانون ہے اور مسلمان پر فرض‌ ہے۔ جو لوگ ان آیات کو جھٹلا کر مسلمان مردوں اور عورتوں کو ان کے ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہونے پر تکلیف دیتے ہیں ان کو اس طرح مخاطب کرتا ہے۔


33:58 اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بیشک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا


اور جو لوگ نیک کام کی راہ میں رفیق و مددگار مردوں اور عورتوں پر لگائے گئے بہتان کو سن کر اس کو کھلا بہتان قرار نہیں دیتےتو اس طرح مخاطب کرتا ہے

24:12 ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس (بہتان) کو سنا تھا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے بارے میں نیک گمان کر لیتے اور (یہ) کہہ دیتے کہ یہ کھلا (جھوٹ پر مبنی) بہتان ہے


خدا خود گواہی دیتا ہے کہ مومن مرد و عورتیں، معاشرے میں اپنے کام کی بناء پر اور اس آپسی رفاقت اور مددگاری کے باعث آخرت میں کس صورت ہوں گے۔


57:12 (اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے


4:124 اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے


اللہ کسی کا کام ضائع نہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت:

3:195 پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے


مرد و عورت کو نیکی کا بدلہ برابر عطا ہوگا۔

40:40 جس نے برائی کی تو اسے بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر صرف اسی قدر، اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائے گا


جنت میں بھی مرد و عورت مساوی حق سے داخل ہونگے کوئی حق تلـفی مرد یا عورت ہونے کے ناطے نہ ہوگی۔

4:124 اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گی




میرا خیال ہے کہ ان تمام آیات کی روشنی میں یہ بہت واضح ہے کہ 

1۔ حصول علم ہی ہماری تخلیق کا بنیادی مقصد ہے۔ مزید احادیث‌و آیات اس کو گواہ ہیں۔

2۔ اعلی ترین تعلیم اور مذہبی تعلیم سب علوم ہیں، صرف مذہبی علوم کا حصول اور باقی علوم سے دور رہنا، قرآن سے کسی طور ثابت نہیں۔ 

3۔ خواتین اور حضرات کا معاشرہ میں فعالیت کے لحاظ سے مساوی مقام ہے۔ ان کے علمی فرائض کے لئے حصول علم کے ضرورت بھی مساوی ہے ۔ 

اوپر دی گئی آیات اس بات کا ثبوت ہیں اور مزید اس سلسلے میں بہت سے احادیث نبوی بھی موجود ہیں۔


اس حصہ میں‌ مختصراً دوسرے علوم کے بارے میں‌آیات پر غور کیا گیا ہے۔


دھاتوں‌کی تعلیم

57:25 یقیناً بھیجا ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی کھلی نشانیاں دے کر اور نازل کی ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان تا کہ قائم ہوں انسان انصاف پر۔ اور اتارا ہم نے لوہا جس میں ہے بڑا زور اور بہت سے فائدے ہیں انسانوں کے لیے اور اس لیے تا کہ معلوم کرے اللہ کہ کون مدد کرتا ہے اس کی اور اس کے رسولوں کی (اللہ کو) دیکھے بغیر بلاشبہ اللہ ہے بڑی قوت والا اور زبردست


کچھ نہ کچھ لویے کے بارے میں ضرور علم ہونا چاہئیے تاکہ اس کے فائیدے معلوم ہو سکیں۔ جی؟ لوہا جن جن چیزوں میں استعمال ہوتا ہے ان تمام علوم پر غور فرمائیے۔ کیا لوہے سے متعلق ان علوم کو حاصٌل کرنا چاہئیے جو لوہہے کے فوائد کے بارے میں بتائیں‌؟ تمام معدنیاتی سائینسز ، میٹلرجی، الیکترانکس، بجلی کے علوم ، آٹو موبائیل ٹٰکنالوجی اور جہاں‌جہاں‌لوہا استعمال ہوتا ہے وہ تمام سائنسز اس میں آ گئیں۔ اگر یہ فائیدہ حاصل کرنا ہے تو یہ علم تو ھاصٌ کرنا ہوگا۔ 


قانونی تعلیم 

5:8 اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے


ہر قسم کی قانون سازی جو عدل کرنے کے لئے ضروری ہے ۔ ایسے تمام علوم کا حصول، شہریات، سماجیات، تاریخ، قانون اور اس سے متعلق تمام علوم تاکہ آپ عدل کرسکیں۔ کبھی کوئی شکص جاہلوں کے پاس عدل کے لئے نہیں جاتا۔ یہ عدل ہر قوم سے کرنا ہے۔ چاہے انکی نفرت ہی کیوں نہ بھری ہو کسی کے دل میں ۔ یعنی ہر قوم کے شہری، سماجی، تاریخی ، قانونی مسائیل اور اصولوں سے واقفیت ضروری ہوگئی۔ 



مالیاتی و سماجیاتی تعلیم

9:103 آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے


9:60 بیشک صدقات (زکوٰۃ)

۔ غریبوں اور محتاجوں

- اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں 

- اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو

- اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں 

- اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور 

- اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور 

- مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ 

یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے


آپ نے صدقات یعنی زکوۃ وصولی اب اس مال کو استعمال بھی کرنا ہے۔ تو کس کس کو دیں گے؟ یہ تو پوری اکنامکس ہو گئی۔ جی؟ تو اب آپ پورے بنکاری کے نظام، پورے مالیاتی نظام ، پورے معاشی نظام اور پورے دفاعی نظام کے بارے میں‌ علم حاصل کیجئے ورنہ یہ فرائض‌کیون کر ادا کرسکیں گے؟


۔ غریبوں اور محتاجوں کو:

پورا فلاحی نظام، بیواؤں‌کی مددد کا نظام، یتیموں‌ کی مدد کا نظام، غریبوں‌کی تعلیم کا نظام۔ 


- اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں 

مالیاتی اداروں کے آفیسروں کے لئے ان کی تنخواہ ادا کرنے کے لئے پورا ایک مالیاتی نظام۔ 


اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو

سبحان اللہ - کیابات ہے! یعنی اسلام پھیلانے کے لئے مدد کرنے یعنی دعوۃ اسلامی دینے کا نظام۔ جس میں ریڈیو، ٹی وی، لاؤڈ‌سپیکرز سب آجاتے ہیں۔ اس کا قائم کرنا فرض ہوا یا نہیں؟‌ تو بنا اس علم کے کیسے آُپ یہ کام کرسکیں گے؟


اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں 

جنگی قیدیوں کو آزاد کروانے کے لئے فنڈز ، یعنی دفاعی تعلیم کا حصول ورنہ تو آپ بات کرنے کے قابل بھی نہ ہونگے۔


- اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور 

جن لوگوں‌کی زندگی رک جائے ان کی مدد کرنے کا نظام تاکہ لوگ بھوکے نہ مریں اور ان کے خاندان چلتے رہیں‌۔ ایک زبردست معاشی نظام - ایسا نظام یورپ اور امریکہ میں‌قایم ہے۔ یہ کریڈٹ‌سسٹم کہلاتا ہے ۔ ان لوگوں‌کی مدد کی جاتی ہے جو قرض‌میں ڈوب گئے ہوں۔ یہ ایک پوری سائنس ہے جو ابھی ہمارے ملکوں‌میں نوزائیدہ ہے۔


اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور 

مکمل دفاعی نظام کا علم۔ دفاع کے لئے کیمیکل ہتھیاروں سے لے کر ایٹمی ٹکنالوجی تک شامل ہے۔ ہر طرح کی آٹو موبائیل شامل ہے۔ سپیس ریسرچ شامل ہے۔ بیالوجیکل سائنسز شامل ہیں ۔ میڈیکل سائنسز شامل ہیں ۔ کمیونیکیشن شامل ہے۔ اور جہاں تک آپ کی فکر کے تانے بانے جاتے ہے وہ سب کچھ شامل ہے۔ ان تمام علوم کے حاصل کئے بنا آُپ اپنے دفاع پر کچھ بھی خرچ کرلیں بے کار ہے۔ 


سڑک پر آئے ہوئے(‌مسافروں اور غریب) پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ 

وہ لوگ جن کا گھر بار نہیں ہوتا ۔ ان کی فلاح کے نطام کے بارے میں‌علم حاصل کیا جائے 


اگر آپ یہ تمام علوم حاصل نہیں کریں گے تو کیا جاہل لوگوں‌ کو اپنا دفاعی نظام چلانے دیں‌گے یا اپنا فلاحی نظام یا مالیاتی نظام چلانے دیں گے؟


جب کوئی یہ کہتا ہے کہ قران کی تعلیم ضروری ہے تو بنیادی طور پر وہ یہ کہتا ہے کہ قرآن جس جس علم کی طرف اشارہ کرتا ہے اس علم کا حصول اور میں مکمل مہارت حاصل کرنا فرض ہے۔ 


یہ تھیں‌صرف چند آیات ۔ جن میں‌درج کردہ فرائض‌پورے کرنے کے لئے اور ایک پوری قوم کو تیار کرنے کے لئے ان تمام علوم کی ضرورت ہے۔ یہی آیات تمام علوم کے حصول کا احاطہ کرلیتی ہیں ، شاید ہی کسی علم کے حصول کے بارے میں کچھ رہ گیا ہو۔


قرآن علم کے حصول کو جو اہمیت دیتا ہے وہ ان آیات سے واضح ہے: 

اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، 

8:11 اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (اپنی) مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادہ ہو جایا کرو اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کھڑے ہو جاؤ تو تم کھڑے ہوجایا کرو، اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے


علم رکھنے والا اور علم نہ رکھنے والا کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟

39:9 بھلا (یہ مشرک بہتر ہے یا) وہ (مومن) جو رات کی گھڑیوں میں سجود اور قیام کی حالت میں عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا رہتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے، فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں


2:151 اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (علوم) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے


زرہ سازی کی تعلیم

21:80 اور سکھادی تھی ہم نے اُسے (داؤد علیہ السلام کو ) صنعتِ زرہ سازی تمہارے لیے تاکہ وہ بچائے تمہیں ایک دوسرے کی مار سے، پھر کیا ہو تم (ہمارا) شکر ادا کرنے والے۔


20:114 فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا 

پس اللہ بلند شان والا ہے وہی بادشاہِ حقیقی ہے، اور آپ قرآن (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کریں قبل اس کے کہ اس کی وحی آپ پر پوری اتر جائے، اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے




والسلام
مکمل تحریر اور تبصرے >>

آیات ایک دوسرے کے متعارض‌نہیں‌۔


اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
خاں‌صاحب،
اس کی کئی مثالیں‌قرآن سے پیش کی جا چکی ہیں کہ فقط حدیث‌ہی خلاف قرآن نہیں ہوتی، بعض آیات بھی بظاہر ایک دوسرے سے بالکل متعارض‌معلوم ہوتی ہیں، تو جیسے ہر عام شخص‌ان آیات کا تعارض دور نہیں‌کر سکتا ، حالانکہ حقیقتا وہ آیات متعارض ہیں‌ہی نہیں، اسی طرح ہر عام شخص‌حدیث‌اور قرآن کا تعارض‌بھی دور نہیں‌کر سکتا۔ فی الحال مزید ایک مثال پیش خدمت ہے:

قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلَآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولاً [بنی اسرائیل:۹۵]
آپ کہہ دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے ہوتے ۔ یعنی رہتے ہوتے تو ہم ان پر آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتہ رسول بن کر نہیں آتا، اب مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیے:

اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ [الحج: ۷۵]
اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسولوں کو منتخب فرماتا ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے:
الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا [فاطر:۱]
سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو آسمانوں کا اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور فرشتوں کو رسول بنانے والا ہے۔

آیات کو مکرر ملاحظہ کر لیجئے۔ پہلی آیت میں‌بھی ملک اور رسول کے الفاظ‌ہیں‌کہ اور آخری دو آیات میں‌بعینہ یہی الفاظ‌ہیں۔ لیکن پہلی آیت میں‌فرشتوں کو رسول بنانے کی نفی کی گئی ہے اور دوسری آیات میں‌فرشتوں‌کو رسول بنانے کا اثبات کیا گیا ہے۔

اب ایک عام شخص کے نکتہ نظر سے اور صدق دل سے بتائیں‌کہ کیا وہ ان دو آیات کو متعارض نہیں‌سمجھے گا؟ کیا راسخ فی العلم علمائے کرام کی جانب رجوع کے بغیر ہر دیہاتی، عام عقل رکھنے والا، کلرک اور کسان، ان آیات کا تعارض دور کر سکے گا؟؟؟

بس ہم بھی فقط اتنا ہی کہتے ہیں کہ ہر شخص کو یہ اختیار نہ دیں کہ وہ حدیث‌اور آیات کے ظاہری الفاظ‌کو دیکھ کر ہی فیصلے کرتے پھریں‌ اور گمراہیاں‌بانٹتے رہیں۔
یہاں‌دو نکات اٹھائے گئے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ آیات کے دو سیٹ‌ایک دوسرے کے خلاف تصور کرکے دکھائے گئے ہیں۔ یا بظاہر متعارض ہوتی ہیں۔ بظاہر متعارض بذات خود ایک بے معانی جملہ ہے۔ 

دوسرا نکتہ یہاں‌یہ اٹھایا گیا ہے کہ عام عقل رکھنے والا، کلرک، کسان ان آیات کا تعارض دور کرسکے گا؟؟ لہذا عام آدمی کو یہ حق نا دیا جائے کہ وہ کیا قبول کرتا ہے اور کیا نہیں‌۔

دونوں نکات کے جواب:
کیا یہ آیات متعارض ہیں؟
قرآن حکیم میں‌کوئی آیت ایک دوسرے کے خلاف نہیں‌۔ بلکہ سرسری نظر سے دیکھنے میں‌بھی ایک دوسرے کے خلاف نہیں 

پہلی آیت میں‌ بتایا گیا ہے کہ اس زمین میں اگر فرشتے چلا پھرا کرتے تو پھر ہم ان کے درمیان فرشتوں‌کو ہی اپنا رسول بنا کر بھیجتے۔ 
یہ بات بہت ہی واضح‌ہے کہ انسانوں کے لئے کبھی کوئی فرشتہ الہ تعالی کا رسول بن کر ان کے درمیان میں‌چلتا پھرتا اللہ تعالی کا رسول بن کر نہیں‌نہیں‌آٰیا ، انسانوں کے لئے انسان ہی اللہ تعالی کے رسول بن کر آئے۔ یہاں اس حقیقت کو مظبوط کیا جارہا ہے کہ کوئی بھی رسول اکرم کوئی فرشتہ نہیں ۔ انسان ہیں۔

اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ [الحج: ۷۵]
اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسولوں کو منتخب فرماتا ہے۔ 

دوسری دو آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی "مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا" یعنی قاصد فرشتوں اور "مِنَ النَّاسِ " اور انسانوں کو "اصْطَفِي" یعنی منتخب کرتے ہیں۔ یہاں یہ واضح‌کیا جارہا ہے کہ کس کو "اصْطَفِي"‌ دیا جارہا ہے یعنی کس کو "منتخب"‌کیا جاتا ہے ۔ 


دوسرا نکتہ: 
کیا ہر آدمی کو یہ اختیار ہونا چاہئیے کہ وہ کیا قبول کرے اور کیا نہیں؟

اللہ تعالی نے ہر انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کیا قبول کرے اور کیا نہیں ۔ اللہ تعالی کا دیا ہوا یہ اختیار ہم چھین نہیں‌سکتے ۔ہمارا کام ہے معلومات کو شئیر کرنا۔ 

تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین:
109:6 لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ 
تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے

فرمان الہی قبول کرنا یا انکار کردینا بندے کی مرضی ہے ۔ 
18:29 وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا 
اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے

اگر کوئی کفر بھی کرے تو اللہ بے نیاز ہے ہر ایک اپنا بوجھ خود اٹھائے گا 
إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ 
اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر (و ناشکری) پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرگزاری کرو (تو) اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں اُن کاموں سے خبردار کر دے گا جو تم کرتے رہے تھے، بے شک وہ سینوں کی (پوشیدہ) باتوں کو (بھی) خوب جاننے والا ہے

لہذا یہ کہنا کہ ہر فرد سے یہ حق چھین لیا جائے کہ وہ کیا قبول کرتا ہے اور کیا نہیں‌ درست نہیں ۔ اپنے اعمال کا ذمہ دار ہر شخص خود ہے لیکن ہم اس سے اس کا یہ حق کہ وہ کیا قبول کرتا ہے اور کیا نہیں، چھین نہیں سکتے ۔

والسلام
مکمل تحریر اور تبصرے >>

پاکستان کا مطلب کیا ۔ لا الہ الا اللہ۔ تو زراعت پر خمس لگا۔


یوم آزادی ۲۰۱۲ پر تحریر کیا گیا۔

آج یوم آزادی ہے، ہم سب کے پیارے پاکستان کے ایک نئی سالگرہ۔ چودھری رحمت علی کی چھوٹی سے سوچ، جس کو شاعر مشرق نے بیان کردیا اور بابائے قوم نے حقیقت بنا کر جوان کردیا۔ 

ایک نئی سوچ ، دنیا کی تاریخ کا دھارا موڑ دینے والی سوچ، دنیا کا جغرافیہ بدل دینے والی سوچ، مخالفت کا طوفان روک دینے والی سوچ، ترقی کی ضمانت سوچ۔ 

ایسی سوچ جس نے دنیا کو ایک نئی پر عزم لیکن جوان قوم دی، ایسی قوم جس کی وراثت قدیم لیکن عظیم، جس کی عمارت قدیم لیکن نئی تعمیر کے جذبے سے بھرپور، علم کے حصول کے عزم و ولولے سے بھرپور قوم۔

ہر قوم کو ترقی کرنے کے روح کی روح رواں کی اور رگوں‌میں بہتے ہوئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں‌جہاں‌یہ بہتا خون تھم جائے۔ وہاں وہاں موت واقع ہونے لگتی ہے۔ 

ہر قوم کی روح رواں اور ترقی کی ضمانت اس قوم کی دولت کی روانی ۔ پاکستان پر ہر سال اللہ تعالی 600 بلین روپے کا صرف گندم نچھاور کردیتا ہے ۔ لیکن سب پاکستانی ناشکرے ہیں، وہ جن کے ہاتھ دولت آتی ہے وہ اس پر 20 فی صد زرعی آمدنی پر ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔۔ وہ جن کے پاس دولت نہیں آتی وہ اصرار نہیں‌کرتے کہ اللہ کے حکم پر عمل کرو۔۔ دونوں ناشکرے ۔۔۔

اس سال یوم آزادی پر قوم کے لئے نیا نعرہ ۔۔۔ ایک نئی سوچ ۔۔۔ دولت کی بہتر گردش کے لئے ۔ بہتر پاکستانی معیشیت کے لئے۔ 

پاکستان کا مطلب کیا ۔ لا الہ الا اللہ۔ تو زراعت پر خمس لگا۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>

تیر ے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب !


ہمارے ایک عزیز و محترم دوست پوچھتے ہیں‌کہ درج ذیل شعر علامہ اقبال نے کس وجہ سے کہا تھا۔ اور اس کا کیا مطلب ہے۔

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب 
گرہ کشا ہے نا رازی نا صاحب کشاف
-------------------------
اس شعر کی تفصیل میں درج ذیل واقعہ پیش کیا جاتا ہے:

علامہ اقبال نے اپنی آخری عمر میں تمام سوالات کے جوابات ، صرف اور صرف قرآن حکیم سے دیتے تھے۔ جب علامہ اقبال سے‌پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے ؟

تو علامہ اقبال نے بتایا کہ جب وہ چھوٹے لڑکے تھے تو ان کے والد صاحب ، شیخ نور محمد، نے حکم دیا کہ روزانہ صبح‌ قرآن مجید پڑھا کیجئے۔۔۔۔ 

چند دن بعد ۔۔۔ جب اقبال قرآن مجید پڑھ کر فارغ ہوئے تو والد صاحب نے پوچھا کہ ۔۔۔
اقبال قرآن مجید سمجھ میں آرہا ہے؟ 
اقبال نے جواب دیا ۔۔۔ کچھ کچھ۔۔
چند روز بعد ان کے والد صاحب نے یہی سوال دہرایا۔۔۔ جس کا جواب اقبال نے یہ دیا کہ میں جناب حافظ الرازی اور حضرت علی ہجویری (داتا گنج بخش ) کی تصانیف سے قرآن سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود بھی سمجھ میں‌نہیں‌آتا۔

شیخ نور محمد صاحب نے اقبال کو بتایا کہ قرآن مجید اللہ تعالی نے رسول اللہ کے قلب پر نازل کیا جو حضور اکرم نے سب تک پہنچادیا،۔۔ یہ اس وقت تک سمجھ میں نہیں ‌آئے گا جب یہ تمہارے اپنے ضمیر پر نہ اتر جائے۔

والسلام
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Sunday, September 9, 2012

قرآں ، عربی میں کیوں

اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ قرآن حکیم کو عربی زبان میں نازل کیا۔
بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ 26:195 
  (اس کا نزول) فصیح عربی زبان میں (ہوا) ہے

لفظ عربی کے اپنے معانی ہے کہ وہ زبان جو معرب ہو یعنی تفصیل سے ہو۔ قرآن حکیم کے ہر لفظ کے اپنے معانی بھی ہیں، جو عربی زبان میں نزول قرآن حکیم سے پہلے سے مستعمل ہیں۔ اس کی ایک مثال کچھ ایسے ہے کہ جہاں  عزی ایک دیوی کے نام کے طور پر استعمال ہوا ہے وہی عزی  ،  کے معانی عزت کی دیوی کے بھی ہیں۔ قرآن حکیم کا ترجمہ کرتے ہوءے یہ ضروری ہے کہ اس بات کا خیال رکھاجائے کہ صرف نام کے طور پر الفاظ کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اس لفظ کے تفصیلی معانی بھی بتائے جائیں۔ میں  نے ترجمے میں  اس امر کا بھی خیال رکھا ہے۔ اگر آپ کو کسی جگہ کسی لفظ کے معانی بھی درکار ہوں اور مجھ سے کوتاہی ہوگئی ہو تو مطلع فرمائیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ قرآن حکیم کو عربی زبان میں نازل کیا


مکمل تحریر اور تبصرے >>