Thursday, June 7, 2012

قران کے نسخے کن ہاتھوں سے ہمارے ہاتھوں تک پہنچے؟ ابتدائی قرآن کی کتابت کی تاریخ


یہ سوال آپ کو بہت سے حلقوں سے ملے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں‌ مکمل لکھا ہوا قرآن موجود نہیں تھا۔ اس مراسلہ میں کوشش کی گئی ہے کہ ‌آپ کو وہ روایات مل جائیں جو قرآن کے پہلے دو نسخوں‌کی تدوین کے بارے میں‌ہیں۔ اگر کوئی دوست ان روایات کا اردو اور عربی ترجمہ بھی فراہم کرسکیں‌تو لنک اور متن دونوں‌ذیل میں‌کٹ پیسٹ کردیں اور شکریہ قبول کیجئے۔


قران حکیم ، فرمان رب عظیم اللہ تعالی کسی کی سنی سنائی اسناد سے آج ہم تک نہیں پہنچا۔ یہ رسول اللہ صلعم پر نازل ہوا، خود ان کے فرمان کے مطابق‌ لکھایا گیا۔ ہر آیت -- لکھی ہوئی -- کم از کم دو اصحابہ کے پاس ملی، جس سے مصحف عثمانی ترتیب دیا گیا۔ ہوں۔ اس ریسرچ کے بغیر بھی ایک مسلمان ‌اس پر یقین رکھتا ہے اور یہ ہمارا ایمان ہے۔ کہ قرآن کی حفاظت اللہ تعالی خود فرماتے ہیں۔

"قرآن اپنے نزول کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہا۔ حفاظ‌ نے اس کو ذاتی طور پر یاد بھی رکھا لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھا اور وہ مصحف عثمانی جس کی ہر آٰیت کم از کم دو اصحابہ کو یاد تھی اور ساتھ ساتھ لکھی ہوئی بھی تھی، اس مصحف ّعثمانی کی کم از کم 3 کاپیاں میری ریسرچ کے مطابق موجود ہیں اور ایک سے زائید آزاد تحقیق کے مطابق اس کا عربی مواد لفظ بہ لفظ موجودہ قرآن سے ملتا ہے۔ "‌ میری استدعا ہے کہ آپ اس موضوع پر ذاتی ریسرچ کیجئے۔ اس کو پڑھنے میں وقت لگے گا، اور حوالہ جات کو پڑھنے میں‌بھی وقت لگے گا۔ 

گواہیوں کے لنک نیچے فراہم کررہا ہوں۔ یہ گواہیاں‌تاریخی امور سے ہیں ۔

1۔ اصحابہ کرام سے منسوب روایتوں‌ میں درج ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قران، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس رہا اور اس کے بعد حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس رہا۔ اس قرآن سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ترتیب کرائے ہوئے قرآن کا موازنہ کیا گیا۔

قرآن کی ان کاپیوں‌کا لنک جو آج بھی موجود ہیں :
‌وہ قرآن جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ شہادت کے وقت پڑھ رہے تھے۔ توپ کاپی میں

مصحف عثمانی کی ایک اور کاپی ازبکستان - تاشقند میں

کویتی کاپی مصحف عثمانی کی

قاہرہ مصر کی کاپی مصحف عثمانی کی


ابتدائی قرآن کی کتابت کی تاریخ:
قرآن کا اولیں نسخہ:
1۔ حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم ، قرآن اپنی نگرانی میں‌لکھواتے تھے اور حفاظ اس کو یاد بھی کرلیتے تھے۔ رسول اکرم صلعم کی موجودگی میں ان لکھوائے ہوئے اوراق کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلا نسخہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی نگرانی میں ترتیب دلوایا، کہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اکرم خود لکھوایا کرتے تھے (‌حوالہ نیچے)۔ اور ایک مزید نسخہ بعد میں‌ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے انہی شرائط پر دوبارہ ترتیب دلوایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس نسخہ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے نسخے کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے منگوا کر موازنہ کروایا ( گواہی کا حوالہ نیچے دیکھئے)

2۔ حضرت حفصہ بنت عمر الخطاب رضی اللہ تعالی عنہا ، رسول اکرم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ قرآن کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا۔ (حوالہ نیچے دیکھیں) یہ نسخہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کاغذ پر لکھے ہوئے کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے سے لکھوایا تھا، یہ کام زید بن ثابت نے کیا ۔ یہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اور پھر حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس پہنچا۔

3۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کا ایک دوسرا نسخہ ترتیب دلوایا ۔ یہ نسخہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالی عنہ ، سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ اور عبدالرحمان بن حارث بن ہاشم کی مدد سے ترتیب دیا گیا۔

اس ترتیب دینے کی شرائط یہ تھیں۔
1۔ ہر وہ شخص‌جسے قرآن کی ایک بھی آٰیت یاد تھی ، وہ زید بن ثابت کے پاس آیا اور وہ آٰیت دہرائی۔
2۔ جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کوئی آیت لکھی تھی وہ زید بن ثابت کے پاس لے کر آیا
3۔ زید بن ثابت نے کوئی بھی ایسی آیت قبول نہیں‌کی جو رسول اکرم کی موجودگی میں‌ نہیں لکھی گئی تھی۔
4۔ صرف یاد کئے ہوئے یا صرف لکھے ہوئے پر بھروسہ نہیں‌کیا گیا بلکہ لکھے ہوئے کا موازنہ یاد کئے ہوئے سے کیا گیا۔
5۔ جناب زید بن ثابت نے کوئی آیسی آیت قبول نہیں‌کی جس کے گواہ دو حفاظ نہیں‌تھے۔ زیدبن ثابت خود ایک گواہ تھے، اس طرح ہر آیت پر تین گواہیاں بن گئیں
6۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جنابہ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قرآن منگوایا اور ان دونوں‌ مصحف‌ کا آپس میں‌ موازنہ کیا گیا۔

اس قرآن کی متعدد کاپیاں‌بنوائی گئیں ، جن میں‌کم از کم 3 عدد مستند مقامات پر موجود ہیں۔

جب پم میں سے کسی ‌ کو یہ قرآن پڑھوایا جاتا ہے تو مندرجہ بالاء میں سے کچھ بھی نہیں‌بتایا جاتا۔ ہم سب ‌ اس قرآن پر اپنی مرضی اور اپنے والدین کی ہدایت پر ایمان لایے۔ اگر ہم میں‌سے کسی نے یہ سب کچھ نہ بھی پڑھا ہوتا تو بھی ہمارا ایمان ایسے ہی پختہ ہوتا۔ کہ اس کو اللہ تعالی نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔


حوالہ جات:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی کہ قرآن کو رسول اکرم کے سامنے لکھے ہوئے سے لکھا گیا، صرف زبانی حفظ سے کام نہیں چلایا گیا

قرآن کا املا کرایا جارہا ہے ، ایک اور گواہی:

مزید صحابہ کی گواہی کہ اس وقت تک کا مکمل لکھا ہو قرآن رسول اکرم کی زندگی میں موجود تھا:

املا لکھانے کی ایک اور مثال:

جو قرآن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی مدد سے ترتیب دلوایا وہ کاپی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچی، یہ تمام کا تمام قرآن لکھے ہوئے قرآن سے اور حفاظ‌ کی گواہی سے ترتیب دیا گیا۔ اس کی گواہی

لکھے ہوئے سے جمع کرنے کی ایک اور گواہی:

میں نے سوچا کہ ان معلومات پر مشتمل کچھ مزید لنک بھی ہونے چاہئیے۔


یہ لنک میں نے بعد میں ڈھونڈھا۔ کوئی بھی مماثلت اتفاقیہ ہے۔

اللہ تعالی قرآن حکیم میں بھی بیان فرماتے ہیں‌کہ یہ لکھا ہوا قران ہے۔

بحیثیت ایک مسلمان ہمارا یہ فرض‌ہے کہ ہم مذہبی کتب کو قرآن حکیم یعنی اللہ کے فرمان کی روشنی میں دیکھیں۔ قرآن نئی اور تمام کتب کے لئےکسوٹی ہے۔

آپ فیصلہ کرلیجئے کہ آپ نئی اور پرانی مذہبی کتب کو قرآن کی مدد سے پرکھیں گے یا کہ
فرمان الہی قرآن حکیم جو رسول اللہ صلعم کی زبان مبارک سے ادا ہوا، کیا اس کتاب کو کسی بھی انسانوں کی لکھی ہوئی نئی پرانی کتب کی مدد سے پرکھا جانا چاہئیے کہ قران حکیم میں‌ درست کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ یقیناً ‌نہیں۔

اللہ تعالی کی قرآن میں گواہی کہ قران حکیم رسول اللہ صلعم کی زندگی میں ہی لکھایا جاتا رہا۔ اگر یہ ایک ایسی کتاب کی شکل نہیں رکھتا جو کہ دیکھی اور پڑھی جاسکے تو پھر کفار کیوں کر ایسا کہتے کہ "اس شخص نے لکھوا رکھا ہے "؟

25:5 وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا 
اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) اگلوں کے افسانے ہیں جن کو اس شخص نے لکھوا رکھا ہے پھر وہ (افسانے) اسے صبح و شام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں (تاکہ انہیں یاد کر کے آگے سنا سکے)

اللہ تعالی قسم کھاتے ہیں لکھے ہوئے قرآن کی۔
52:2 وَكِتَابٍ مَّسْطُورٍ 
اور لکھی ہوئی کتاب کی قَسم

احادیث کے حوالوں، اکابرین اسلام کی گواہیوں اور قرآن حکیم فرمان الہی کی آیات سے یہ بات ثابت ہے کہ قرآن حکیم رسول اللہ کی زندگی میں ہی لکھایا جاتا رہا اور اولین خلفاء نے اسی لکھے ہوئے قرآن حکیم کی مدد سے قران حکیم کے اولیں نسخہ ---- لکھے ہوئے اور یاد کئے ہوئے ---- دونوں قسم کے قرآن حکیم کی مدد سے تیار کئے اور اپنے ہر صوبے میں‌ بھجوائے۔ 

ایسا کہنا کہ قرآن حکیم، ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا یا پتوں پر لکھا ہوا تھا یا کوئلہ سے لکھا ہوا تھا درست نہیں۔ کہ رسول اکرم کی زندگی میں‌ اولین مصحف شریف کے مکمل ثبوت دستیاب ہیں اور اس کا تواتر حفاط اور تحریری نسخوں سے رسول اکرم سے آج تک ثابت ہے۔

سب سے پہلے نسخہ کے بارے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی نسخہ تھا جو حضرت حفصہ (ر) کے پاس تھا، جس کی لکھی ہوئی ہر آیت کے لئے دو دو اصحاب نے گواہی دی ، قرآن کی ہر آیت لکھی ہوئی اور یاد کی ہوئی دوبار تصدیق شدہ لکھی گئی۔

کیا اس زمانے میں کاغذ قلم کا استعمال ہوتا تھا؟ 
68:1 ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ 
نون (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، قلم کی قَسم اور اُس (مضمون) کی قَسم جو لکھتے ہیں

گویا بوقت نزول قرآن حکیم، قلم موجود تھا اور اس سے لکھا بھی جاتا تھا۔ 

کیا عام طور پر لکھا جاتا تھا یا یہ بہت ہی عنقا تھا؟
2:282 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلاَ يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُواْ وَلاَ تَسْأَمُوْاْ أَن تَكْتُبُوْهُ صَغِيرًا أَو كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّهِ وَأَقْومُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُواْ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلاَّ تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوْاْ إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلاَ يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَلاَ شَهِيدٌ وَإِن تَفْعَلُواْ فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّهُ وَاللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اے ایمان والو! جب لین دین کرو تم اُدھار کا کسی میعادِ معین کے لیے تو اسے لکھ لیا کرو۔ اور لکھے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ، اور نہ انکار کرے لکھنے والا لکھنے سے جیسا کہ سکھایا ہے اس کو اللہ نے سو چاہیے کہ وہ لکھے- اور تحریر لکھوائے وہ شخص جس پر قرض ہے اور چاہیے کہ ڈرے اللہ سے جو اس کا رب ہے اور کمی بیشی نہ کرے اس میں ذرا بھی ، اور اگر ہو وہ شخص جس پر قرض ہے کم عقل یا ضعیف یا قابلیّت نہ رکھتا ہو کہ تحریر لکھوائے وہ خود تو لکھوائے اس کا ولی انصاف کے ساتھ ۔ اور گواہ بنالو دو گواہ اپنے مردوں میں سے پھر اگر نہ موجود ہوں دومرد تو ایک مرد اور دو عورتیں، ایسے لوگوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو بطورِ گواہ تاکہ (اگر) بھول بھٹک جائے ان میں سے ایک تو یاد دہانی کرادے ان میں سے ایک دوسری کو۔ اور نہ انکار کریں گواہ جس وقت بھی بلائے جائیں۔ اور نہ تسا ہل کرو دستاویز لکھنے میں (معاملہ) چھوٹا ہو یا بڑا، تعیینِ میعاد کے ساتھ ۔تمہارا ایسا کرنا زیادہ قرین انصاف ہے اللہ کے نزدیک اور بہت درست طریقہ ہے شہادت کے لیے اور زیادہ قریب ہے اس کے کہ نہ پڑو تم شک و شبہ میں۔ ہاں یہ کہ ہو لین دین دست بدست (جس طرح) تم لیتے دیتے ہو آپس میں، سو نہیں ہے تم پر کچھ گناہ، نہ لکھنے میں اور گواہ کرلیا کرو جب تم سودا کرو اور نہ ستایا جائے لکھنے والے کو اور نہ گواہ کو۔ اور اگر تم ایسا کرو گے تو بیشک ہوگی یہ سخت گناہ کی بات تمہارے لیے۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے۔ اور (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے تم کو۔ اللہ اور اللہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔ 

یہ معاہدے کاغذ، کپڑے پر لکھے جاتے تھے؟ یا ہڈیوں پتھر اور درخت کی چھالوں اور درخت کے پتوں پر لکھے جاتے تھے؟ اگر لکھنا پڑھنا عام طور پر موجود نہیں تھا تو اس ہدایت الہی کے کیا معنی ؟

اگر معاہدے عام طور پر لکھوائے جاتے تھے تو کیا وجہ ہے کہ نبی اکرم صلعم نے مکمل قرآن حکیم کاغذ پر نہیں لکھوایا؟ اور یہ وہی قران حکیم کیوں نہ مانا جائے جو کہ حضرت حفصہ (ر) کے پاس موجود تھا

آپ کو پرانا ترین قرآن جو کہ حضرت عثمان 0ر) کے زمانے سے معروف ہے کاغذ یا کپڑے پر ہی لکھا ملتا ہے ۔ کوئی بھی قرآن آج تک پتھروں ، ہڈیوں، اور پتوں پر لکھا ہوا موجود نہیں۔

سب سے پرانے قرآن کے صفحے سنعا ، یمن میں پائے گئے ، یہ صفحات بھی ایک طرح کے کپڑے سے بنے کاغذ پر لکھے گئے ہیں۔ یہ قرآن کی میری تفسیر نہیں ہے بھائی ، لکھے ہوئے قرآن کی گواہی تو خود قرآن دیتا ہے ۔ 

کیا نبی اکرم کے زمانے میں‌ قرآن لکھایا جاتا رہا تھا؟
اس کی ایک اور مثال جناب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام پر ایمان لانے کے واقعہ سے ملتی ہے۔ جس میں‌ بتایا گیا ہے کہ ان کی بہن سورۃ طہ کی تلاوت کررہی تھیں جس کے اوراق انہوں نے چھپالئے تھے ، جو کہ ھضرت عمر کے استفسار کرنے پر ان کو دکھائے۔ جس کو پڑھ کر حضرت عمر (ر) کا دل ایمان سے روشن ہوگیا۔

مزید آیات اور روایات کا لنک اوپر دے چکا ہوں جس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن لکھی ہوئی حالت میں موجود تھا اور جوں جوں نازل ہوتا رہا لکھوایا جاتا رہا۔ قرآن کی سورۃ‌ اور آیات کی ترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ترتیب دی ۔ اسی ترتیب کو خلفاء نے جاری رکھا۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ یہ میرے ایمان کا حصہ ہے۔ 

کاغذ مصریوں نے 4000 سال پہلے بنانا شروع کردیا تھا۔ آپ کو پرانے سے پرانا قرآن بھی کاغذ یا کاغذ جیسے کپڑے پر ملے گا۔ بلکہ آپ کو بائیبل اور توراۃ بھی کاغذ پر لکھی مل جائیں گی۔ آج تک کوئی قران پتھر، کھال، پتے اور چمڑے پر لکھا ہوا نہیں نظر آیا۔ 

کیا وجہ ہے کہ ہم معروف تاریخ اور قرآن حکیم کی گواہیوں کو تسلیم نہ کریں ؟

ہر مسلمان کو یہ سوال پوچھنا چاہئیے کہ آیا کہ وہ قرآن حکیم کی گواہی پر یقین رکھے گا یا پھر فارسی ٹکسال کی ڈھلی ہوئی کتب پر، جن میں ہتک رسول بھی پائی جاتی ہے؟

16:98 فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 
سو جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود (کی وسوسہ اندازیوں) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں


7:204 وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ 
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے

بغیر لکھے کو کیسے پڑھیں گے؟ اگر لکھی ہوئی کتاب نہیں تھی تو اللہ تعالی پڑھنے پر توجہ دینے پر کیا اپنے الفاظ ضائع کررہے ہیں؟ پھر اس کتاب کا نام دیکھئے "قرآن" ۔ پڑھا جانے والا۔ تو صاحب ، لکھا ہی نہیں تھا تو پڑھا کیسے جاتا۔ آپ کہیں‌گے کہ یہ وہ پڑھنا نہیں بلکہ یہ کوئی اور پڑھنا ہے۔ اس دوسرے والے پڑھنے کی بھی آیت ملاحظہ فرمائیے تاکہ آپ کو یقین ہوجائے کہ یہ کتاب پڑھنے والا پڑھنا ہی ہے۔

73:4 أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا 
یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں

رسول اکرم کا آخری خطبہ ذرا غور سے پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، 1) اللہ کی کتاب 2) میری سنت۔

یہ اللہ کی کتاب کس صورت میں تھی؟ ہڈیوں، پتھروں اور پتوں پر لکھی ہوئی تحاریر کو کتاب کون کہے گا؟ کبھی آپ نے استنبول میں یا تاشقند میں موجود مصحف کا حجم دیکھا ہے؟ جو کہ کپڑے نما کاغذ پر ہے؟ پتھروں، ہڈیوں اور پتوں پر لکھی ہوئی یہ تحریر کہاں محفوظ رکھی جاتی تھی؟ کسی صندوق میں ؟ 

جو قرآن حکیم ابوبکر (ر) کے وقت کمپائیل ہوا اس کی بھی شرط یہ تھی کہ اگر کسی کے پاس کوئی آیت ہے جو کہ رسول اکرم کی موجودگی میں‌لکھی گئی ہو تو وہ شامل ہوگی ورنہ نہیں۔ 

ان تمام نکات کی موجودگی میں‌یہ سوچنے کی کیا وجہ ہے کہ قران باقاعدگی سے لکھا ہوا رسول اکرم کی زندگی میں‌موجود نہیں تھا؟

اگر ایسا تھا قرآن لکھی صورت میں موجود نہیں تھا تو حضرت حفصہ (ر) سے جو قرآن حضرت ابوبکر(ر)ٌ نے منگوایا تھا، جس سے گواہوں کی تحاریر و یادواشت کا موازنہ کیا گیا تھا ، وہ کیا تھا؟

آپ کو پرانے سے پرانے قرآن کی تصاویر فراہم کی ہیں جو کہ کاغذ‌پر ہیں۔ آپ ایسا کیجئے کہ ایک گواہ ، ایک تصویر، ایک ایسی تصویر دیکھنے والا گواہ فراہم کیجئے جس نے قران کو پتھروں اور ہڈیوں پر لکھا دیکھا ہو۔ کسی میوزیم کا ریفرنس، ورنہ اپنی ذاتی گواہی کہ آپ نے قرآن حکیم کی آیات کو پتھر اور ہڈیوں پر لکھا دیکھا ہے جو کہ رسول اللہ کے زمانے کا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کاغذ پر لکھا ہوا آسانی سے تلف ہوجاتا ہے ، اور پتھروں پر لکھا مشکل سے۔

نوٹ :‌یہاں‌کاغذ سے مراد ہرن کی کھال کا، کپڑے کا اور مصری قسم کا کاغذ‌ہے جو کہ فرعون کے دور میں بھی موجود تھا۔ جو کہ آج کے جدید کاغذ سے مختلف ہوتا ہے۔

ایسا ضرور ممکن ہےکہ کچھ صحابہ نے مختلف طریقوں سے قران کو لکھ کر رکھا ہو لیکن ایک قرآن حکیم کی موجودگی جو رسول اللہ لکھواتے رہے باقاعدگی سے ملتی ہے۔ خود قرآن سے بھی ، روایات سے بھی اور تاریخ‌سے بھی۔


1- سورۃ علق
1 اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ٢ خَلَقَ الْإِنسَنَ مِنْ عَلَقٍ ٣ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ٤ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ٥ عَلَّمَ الْإِنسَنَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

2- سورۃ قلم
ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ-

3- سورۃ فرقان
وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا 
اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) اگلوں کے افسانے ہیں جن کو یہ شخص نے لکھوا رکھا ہے پھر وہ اسے صبح و شام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں

4- سورۃ بقرۃ
يَأيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إذَا تَدَايَنتُمْ بِدَيْنٍ إلَى أجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۔۔۔۔۔۔۔
اے ایمان والو! جب لین دین کرو تم اُدھار کا کسی میعادِ معین کے لیے تو اسے لکھ لیا کرو۔ 

1- قران کی پہلی وحی میں قلم کا ذکر اس سے لکھنے کی اہمیت واضع ہے 2- سورۃ ن میں قلم کی قسم کھائی جا رہی ھے 3-سورۃ فرقان میں قران کے ساتھ کے ساتھ لکھے جانے کا ذکر ھے 4-سورۃ بقرۃ میں ایک معاہدہ کے لیئے لکھنے کی تلقین کی جا رہی ھے تو پھر وہ قران جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ھے-اسے یاد داشت کے لئیے کیسے چھوڑا جا سکتا تھا؟
قرانی حقائق سے بات واضح ھو جاتی ھے کہ جوں جوں قران آپ کے قلب پر اترتا گیا(25:5) ویسے ویسے اسے لکھا جاتا رہا۔

قرآن حکیم اللہ تعالی نے نازل کی اور وہی اس کی حفاظت فرمانے والے ہیں۔ اس بات کا ثبوت فراہم کیا جاچکا ہے کہ قرآن حکیم نا صرف لکھا جاتا رہا بلکہ رسول اکرم کی رخصتی کے وقت ایک باقاعدہ کتاب کی شکل میں موجود تھا ۔ اس کتاب کی قسم اللہ تعالی نے خود اس کتاب میں‌ کھائی۔ رسول اکرم نے اس کتاب کی آیات کی ترتیب، سورتوں کی ترتیب ۔۔ خود سے کروائی۔ ایک کتاب کی غیر موجودگی میں ۔ آیات کی ترتیب اور سورتوں کی ترتیب ہونی ناممکن ہے۔ اس سوال کا جواب کوئی بھی عالم دین یہی دے گا کہ قرآن حکیم کی سورتوں‌کے نمبر شمار ، اور سورتوں کی ترتیب نبی اکرم نے خود فرمائی۔

لہذا یہ کہنا کہ یہ کتاب رسول اکرم کی وفات کے وقت موجود نہیں تھی۔ ایک بڑا سوال پیدا کرتی ہے کہ پھر اس کتاب کی آیات اور سورتوں کی ترتیب کس نے کی؟ کیا وجہ تھی کہ ہر لکھی ہوئی آیت پر دو گواہوں کی شرط رکھی گئی؟

ایسے نظریات کا پرچار صرف وہ لوگ کرتے رہے ہیں جو قرآن حکیم کو مشکوک قرار دینا چاہتے ہیں۔


کچھ لوگ ۔۔۔ مسلمانوں کے ذہن میں شک و شبہ پیدا کرنے کے لئے ۔ ایسا کہتے ہیں کہ نا قرآن لکھا ہوا موجود تھا اور نا ہی حدیث۔ یہ دونوں‌ ہی صرف لوگوں کے سینے میں موجود تھے ۔۔ 

قرآن لکھا ہوا اور سینوں میں دونوں‌ موجود تھا اور ۔۔۔ اسی قرآن کی سات کاپیاں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس قرآن سے کرکے بھجوائیں جو رسول اللہ کی زندگی میں موجود تھا۔ 

جب کہ کوئی بھی روایت لکھی ہوئی موجود نہیں تھی اور نہ ہی اس کا کوئی گواہ کسی بھی خلیفہ نے طلب کیا۔ احادیث اور ان کے ساتھ ملائی جانی والی کہانیاں‌ ۔۔۔ سینکڑو سال بعد مرتب کی گئیں۔ یہ کتب دشمنان اسلام کی حرکتوں کا شکار رہیں۔

قرآن حکیم رسول اکرم کی زندگی میں لکھا جاتا رہا۔ اس لکھے ہوئے قرآں حکیم کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں مرتب کرتے وقت، اس کی ہر آیت پر خلفاء راشدین نے کم از کم دو عدد گواہ کی شرط رکھی۔ اس طرح اللہ تعالی نے اس مقدس کتاب کی حفاظت کی۔ قرآن حکیم سینوں اور کاغذ‌دونوں‌پر محفوظ رہا۔

اس کے برعکس۔ کتب روایات یعنی حدیث کی کتب ، رسول اکرم کے زمانے میں نہیں لکھی گئیں، رسول اکرم نے ان اقوال کو لکھنے سے منع فرمایا۔ خلفاء راشدین نے ان کو مرتب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ حضرت عمر نے اپنے پاس محفوظ کی ہوئی روایات کی نوٹ بک خود سے جلائی۔ کوئی روایت بھی دو گواہوں کی موجودگی میں نہیں لکھی گئی۔ روایات مرتب کرنے والوں نے تقریباً دو سو سال بعد یہ کام کیا۔ یہ کتب روایات ، آج بھی کاغذ‌پر محفوظ نہیں ہیں۔ یہ سینوں میں بھی محفوظ نہیں‌ہیں۔ ان کتب کی ہر جلد میں تعداد، متن، ترتیب اور رویوں کا فرق ہوتا ہے۔ خود رسول اکرم کے فرمان کے مطابق، صرف وہ روایات ممکنہ طور پر اقوال و اعمال رسول اکرم سمجھی جانی چاہئیں جو موافق القرآن ہیں۔ خلاف قرآن روایات ، حدیث رسول اکرم نہیں‌ہوسکتیں۔

لوگوں نے ان کتب میں‌اپنی من پسند روایات شامل کرکے قرآن حکیم میں پیوند لگانے کی کوشش کی۔ لیکن قرآں حکیم اللہ تعالی نے اتارا ہے اور وہی اس کی حفاظت فرما رہے ہیں۔ کتب روایات میں رسول اکرم کی احادیث کے ساتھ ساتھ --- عقل سے خارج اور خلاف قرآن روایات --- بھی موجود ہیں۔ صرف اور صرف موافق القرآن روایات قبول کیجئے۔




نوٹ: اگر کسی بھائی کو اس مراسلہ میں کوئی غلطی نظر آئے تو سب کے فائیدہ کے لئے مجھے مطلع فرمائیے تاکہ اس
 غلطی کو فوراً درست کیا جاسکے۔

والسلام

فاروق سرور خان
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب 
گرہ کشا ہے نا رازی نا صاحب کشاف
مکمل تحریر اور تبصرے >>