Sunday, September 30, 2012

آیات ایک دوسرے کے متعارض‌نہیں‌۔


اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
خاں‌صاحب،
اس کی کئی مثالیں‌قرآن سے پیش کی جا چکی ہیں کہ فقط حدیث‌ہی خلاف قرآن نہیں ہوتی، بعض آیات بھی بظاہر ایک دوسرے سے بالکل متعارض‌معلوم ہوتی ہیں، تو جیسے ہر عام شخص‌ان آیات کا تعارض دور نہیں‌کر سکتا ، حالانکہ حقیقتا وہ آیات متعارض ہیں‌ہی نہیں، اسی طرح ہر عام شخص‌حدیث‌اور قرآن کا تعارض‌بھی دور نہیں‌کر سکتا۔ فی الحال مزید ایک مثال پیش خدمت ہے:

قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلَآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولاً [بنی اسرائیل:۹۵]
آپ کہہ دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے ہوتے ۔ یعنی رہتے ہوتے تو ہم ان پر آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتہ رسول بن کر نہیں آتا، اب مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیے:

اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ [الحج: ۷۵]
اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسولوں کو منتخب فرماتا ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے:
الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا [فاطر:۱]
سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو آسمانوں کا اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور فرشتوں کو رسول بنانے والا ہے۔

آیات کو مکرر ملاحظہ کر لیجئے۔ پہلی آیت میں‌بھی ملک اور رسول کے الفاظ‌ہیں‌کہ اور آخری دو آیات میں‌بعینہ یہی الفاظ‌ہیں۔ لیکن پہلی آیت میں‌فرشتوں کو رسول بنانے کی نفی کی گئی ہے اور دوسری آیات میں‌فرشتوں‌کو رسول بنانے کا اثبات کیا گیا ہے۔

اب ایک عام شخص کے نکتہ نظر سے اور صدق دل سے بتائیں‌کہ کیا وہ ان دو آیات کو متعارض نہیں‌سمجھے گا؟ کیا راسخ فی العلم علمائے کرام کی جانب رجوع کے بغیر ہر دیہاتی، عام عقل رکھنے والا، کلرک اور کسان، ان آیات کا تعارض دور کر سکے گا؟؟؟

بس ہم بھی فقط اتنا ہی کہتے ہیں کہ ہر شخص کو یہ اختیار نہ دیں کہ وہ حدیث‌اور آیات کے ظاہری الفاظ‌کو دیکھ کر ہی فیصلے کرتے پھریں‌ اور گمراہیاں‌بانٹتے رہیں۔
یہاں‌دو نکات اٹھائے گئے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ آیات کے دو سیٹ‌ایک دوسرے کے خلاف تصور کرکے دکھائے گئے ہیں۔ یا بظاہر متعارض ہوتی ہیں۔ بظاہر متعارض بذات خود ایک بے معانی جملہ ہے۔ 

دوسرا نکتہ یہاں‌یہ اٹھایا گیا ہے کہ عام عقل رکھنے والا، کلرک، کسان ان آیات کا تعارض دور کرسکے گا؟؟ لہذا عام آدمی کو یہ حق نا دیا جائے کہ وہ کیا قبول کرتا ہے اور کیا نہیں‌۔

دونوں نکات کے جواب:
کیا یہ آیات متعارض ہیں؟
قرآن حکیم میں‌کوئی آیت ایک دوسرے کے خلاف نہیں‌۔ بلکہ سرسری نظر سے دیکھنے میں‌بھی ایک دوسرے کے خلاف نہیں 

پہلی آیت میں‌ بتایا گیا ہے کہ اس زمین میں اگر فرشتے چلا پھرا کرتے تو پھر ہم ان کے درمیان فرشتوں‌کو ہی اپنا رسول بنا کر بھیجتے۔ 
یہ بات بہت ہی واضح‌ہے کہ انسانوں کے لئے کبھی کوئی فرشتہ الہ تعالی کا رسول بن کر ان کے درمیان میں‌چلتا پھرتا اللہ تعالی کا رسول بن کر نہیں‌نہیں‌آٰیا ، انسانوں کے لئے انسان ہی اللہ تعالی کے رسول بن کر آئے۔ یہاں اس حقیقت کو مظبوط کیا جارہا ہے کہ کوئی بھی رسول اکرم کوئی فرشتہ نہیں ۔ انسان ہیں۔

اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ [الحج: ۷۵]
اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسولوں کو منتخب فرماتا ہے۔ 

دوسری دو آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی "مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا" یعنی قاصد فرشتوں اور "مِنَ النَّاسِ " اور انسانوں کو "اصْطَفِي" یعنی منتخب کرتے ہیں۔ یہاں یہ واضح‌کیا جارہا ہے کہ کس کو "اصْطَفِي"‌ دیا جارہا ہے یعنی کس کو "منتخب"‌کیا جاتا ہے ۔ 


دوسرا نکتہ: 
کیا ہر آدمی کو یہ اختیار ہونا چاہئیے کہ وہ کیا قبول کرے اور کیا نہیں؟

اللہ تعالی نے ہر انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کیا قبول کرے اور کیا نہیں ۔ اللہ تعالی کا دیا ہوا یہ اختیار ہم چھین نہیں‌سکتے ۔ہمارا کام ہے معلومات کو شئیر کرنا۔ 

تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین:
109:6 لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ 
تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے

فرمان الہی قبول کرنا یا انکار کردینا بندے کی مرضی ہے ۔ 
18:29 وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا 
اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے

اگر کوئی کفر بھی کرے تو اللہ بے نیاز ہے ہر ایک اپنا بوجھ خود اٹھائے گا 
إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ 
اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر (و ناشکری) پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرگزاری کرو (تو) اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں اُن کاموں سے خبردار کر دے گا جو تم کرتے رہے تھے، بے شک وہ سینوں کی (پوشیدہ) باتوں کو (بھی) خوب جاننے والا ہے

لہذا یہ کہنا کہ ہر فرد سے یہ حق چھین لیا جائے کہ وہ کیا قبول کرتا ہے اور کیا نہیں‌ درست نہیں ۔ اپنے اعمال کا ذمہ دار ہر شخص خود ہے لیکن ہم اس سے اس کا یہ حق کہ وہ کیا قبول کرتا ہے اور کیا نہیں، چھین نہیں سکتے ۔

والسلام

0 comments: